سچی کہانیاں

بلوچی عوام کے شکوے بجا لیکن ان کے سردار اور نواب ہی ترقی نہیں چاہتے


…منصور مہدی
… پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں اقتدار ہمیشہ فوجی و سول بیوروکریسی ، جاگیردار ، سردار اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ وفاق ہو یا صوبے یہی لوگ اقتدار پر فائز رہے۔ جنہوں نے ہمیشہ صرف اپنے مفادات کو مد نظر رکھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان سیاسی،سماجی ، معاشی، معاشرتی اور مذہبی ناہمواریوں کا شکارہو چکا ہے۔اب یہ مسئلے صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے بن چکے ہیں۔صرف بلوچستان ہی نہیں پاکستان بھر کے 80فیصد سے زائد عوام انہی مسائل سے دوچار ہیں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کے عوام ان مسائل کا زیادہ شکار ہیں۔ تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بلوچستان پر بھی ہمیشہ سرداروں ، وڈیروں اور اشرفیہ ہی حکمرانی کرتی رہی۔
بلوچ عوام آج وفاق سے یہ شکایتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے ہمیشہ بلوچستان کے مفادات کو پس پشت ڈال ڈالا ہے۔ اس میں یقیناً سچائی بھی ہے مگر یہ دیکھنا ہے کہ بلوچستان پر حکمران طبقے کی طرف سے بلوچ عوام کی سہولت کے لیے کیے گئے اقدامات کو وفاق کی حکومتوں نے سبوتاژ کیا یا بلوچ حکمرانوں کی طرف سے ہی ایسے اقدامات نہیں کیے گئے اور الزام وفاق پر لگا دیا گیا۔
بلوچوں کے جو پاکستان سے شکوے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں بنیادی ڈھانچے سے محروم 20اضلاع میں سے 18کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ بنیادہ سہولتوں سے محروم اضلاع پنجاب میں 29%، سندھ میں 50%، خیبر پختونخواہ میں 62فیصد اور بلوچستان میں 92فیصد ہیں( کوئٹہ اور زیارت کو نکال کر)۔ بنیادی سہولتوں سے محروم آبادی پنجاب میں 25%، سندھ میں 23%، خیبر پختونخواہ میں 51%اور بلوچستان میں 88%فیصد ہے۔ غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی پنجاب میں 26% ، سندھ میں 38% ، خیبرپختونخواہ میں 29%اور بلوچستان میں 48%ہے۔ خواندگی کی شرح پاکستان میں 50%ہے تو بلوچستان میں مردوں میں 23%اور خواتین میں صرف 7%ہے۔ بلوچستان کا صوبہ 50کی دہائی سے ملک بھر کو سوئی گیس فراہم کر رہا ہے لیکن بلوچستان کے 30اضلاع میں سے صرف 4اضلاع کو گیس کی سپلائی جاری ہے۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں 1986میں گیس فراہم کی گئی۔ بجلی کے حوالے سے بھی بلوچستان کے 78%علاقے محروم ہیں۔
پھر بلوچوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب کے بہت سارے ٹاپ بیوروکریٹس نے ماضی میں ان کے مختلف اضلاع سے ڈومیسائل بنوا کر اپنے آپ کو فیڈرل حکومت کے سی ایس ایس سروسز میں بڑے عہدوں پر تعیناتیاں بلوچستان کے کوٹے سے کرواتے رہے ہیں جس سے ان کے صوبے کی حق تلفی ہوتی رہی ہے۔
بلوچ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے، اسلام آباد کے سیاسی اور فوجی حکمران پاکستانی میڈیا کے ساتھ ملک کر انہیں حب الوطنی یا ملک دشمنی کا سرٹیفیکٹس بانٹے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے وہاں کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔
بلوچستان کی اکثریتی آبادی صوبے میں جاری میگا پراجیکٹس کے ثمرات سے بھی محروم چلی آرہی ہے۔ ان پراجیکٹ میں گوادر پورٹ، میرانی ڈیم، کچی کینال، کوسٹل ہائی وے، کنٹونمنٹس، پسنی آئل ریفارینری پلانٹ شامل ہیں۔ ان پراجیکٹس سے دوسرے صوبوں کے افراد زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان میں جاری ان پراجیکٹس پر انجینئرز اور ٹیکنکل سٹاف بھی زیادہ تر دوسرے صوبوں کا ہیں جبکہ بلوچستان سے صرف ورکرز بھرتی کیے گئے ہیں۔
سینڈک کوپر گولڈ پراجیکٹ پر کل ملازمین کی تعداد1200 ہے جن میں سے بلوچستان کے صرف 50ملازم ہیں۔
تعلیمی فروغ کے لیے بلوچستان میںبہت کم کام ہو رہا ہے اور اگر ہو رہا ہے تو بڑے شہروں تک محدود ہے۔
سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر بلوچستان کے عوام کے لیے ترقی کے دروازے کن لوگوں نے بند کیے اور وہ کون تھے کہ جو صاحب اقتدار ہونے کے باوجود تساہل سے کام لیتے رہے اورجن کی وجہ سے آج بلوچستان کے حالات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں بلوچستان کے آج بگڑے ہوئے حالات میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں یہاں کے لوگ ، حکومت یا دوسرے عناصر بری الذمہ ہیں۔ حالات کو بگاڑنے میں خود بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور یہاںکے قبائلی نظام اور سرداروں کا کرداربھی کم افسوس ناک نہیں ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے بلوچستان بلحاظ رقبہ پاکستان کا43 فیصد ہے اور آبادی تقریباً88 لاکھ کے قریب ہے جو کہ چند ایک شہروں کے علاوہ چھوٹے دیہات اور انتہائی چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے۔ جن تک اگرچہ سہولتوں کا پہنچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن حکومت کا کام صرف بڑے شہروں کی ترقی نہیں ہوتا بلکہ دور افتادہ لوگوں کو بھی سہولتیں دینا ہے۔
بلوچستان کی آبادی میں بلوچوں کا تناسب تقریباً نصف ہے۔ چالیس فیصد پشتون اور دس فیصد غیر بلوچ آباد کار ہیں۔ جن میں اکثریت پنجابیوں کی ہے۔ بلوچ قبائل میں مری، مینگل، بگٹی ، مگسی، رئیسانی، جمالی اور زہری وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں مری ، مینگل اور بگٹی زیادہ نمایاں ہیں۔
بلوچستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انہی قبائل کے سردار ہی مختلف ادوار میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اب یہی بلوچستان میں جاری شورش اور بلوچستان کی خودمختاری کی تحریک میں پیش پیش ہیں۔
خود مختاری کی اس لڑائی میں بلوچستان لبریشن آرمی ، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، اور بلوچ عوامی محاز آزادی جیسی مسلح تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ اور اس بات میں بھی اب کوئی شک نہیں یہ مسلح تنظیمیں بلوچی عوام کے حقوق کے نام پر گوریلا کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جہاں غیر بلوچی آباد کار جن میں اکثریت پنجابیوں کی ہے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں وہاں پاکستان کے قومی پرچم کو نذر آتش کرنے اور قومی ترانہ پڑھنے سے روکنے کے اقدامات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ قومی تنصیبات جیسے گیس پائپ لائنوں ، ریلوے لائنوں ، سیکورٹی اداروں کے کیمپوں، بجلی کے ٹاورز اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
جبکہ دوسری طرف انتہا پسند بلوچ قوم پرست لاپتہ ہورہے ہیں اور انکی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پڑی مل رہی ہیں اور اسکی ذمہ داری فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی پر ڈال کر نفرت کی آگ کو مزید بھڑکایا جارہا ہے۔
اور ان سب کاموں میں وہی قبائل ساتھ دے رہے ہیں جو ہمیشہ حکومتون میں رہے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کا پوتا براہمداغ بگٹی ، سردار خیر بخش مری کا صاحبزادہ حربیار مری اور خان قلات کا جانشین میر سلیمان داﺅد بلوچستان کی خود مختاری کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل بھی دوبئی می ہیں اور ان گروپوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
مری قبیلے کے سربراہ نواب خیر بخش مری تو ہمیشہ سے پاکستان سے ناراض رہے ہیں۔ 1973ءمیں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت کو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کیا گیا تو مری جنگجو پہاڑوں پر چلے گئے اور قبیلے کے سربراہ سردار خیر بخش مری نے جن پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اور کم و بیش 20سالوں تک کابل میں مقیم رہے اور اب ان بیٹا حربیار مری خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہے۔
مینگل قبیلے کے سربراہ سردار عطاءاللہ مینگل 1972ءمیں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے لیکن انکی حکومت کو بلوچستان کی علیحدگی کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا۔ سردار عطاءاللہ مینگل اس وقت سے پاکستان اور پنجاب سے ناراض چلے آرہے ہیں۔90 کی دہائی میں ان کے بیٹے سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے لیکن اس کے باوجود سردار عطاءاللہ مینگل کی ناراضگی کم نہ ہوئی۔ اور اب انکے جانثار انکے اشاروں پر بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک میں پیش پیش ہیں۔
بگٹی قبیلے کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ اسکے سربراہ نواب اکبر بگٹی مرحوم نے 1947ءمیں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کےلئے مثبت کردار ادا کیا تھا۔1948ءمیں ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کےلئے خان قلات میر احمد یار خان کو آمادہ کرنے کےلئے نواب اکبر بگٹی مرحوم نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ نواب اکبر بگٹی پاکستان کے وزیر داخلہ اور بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ مختلف ادوار میں پیپلز پارٹی(ذوالفقار علی بھٹو) اور مسلم لیگ (میاں نواز شریف) کے اتحادی بھی رہے۔ لیکن اب انکا پوتا براہمداغ بگٹی پاکستان دشمنی میں سب سے آگے ہے۔
اصل میں مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی اور حکومت کے درمیان معاملات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو اکہ نواب اکبر بگٹی کے اشارے پر انکے کارندوں اور حامیوں نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا اور سوئی سے ڈیرہ بگٹی تک پہاڑی چوٹیوں پر اسلحہ لےکر بیٹھ گئے اور سرکاری تنصیبات اور سوئی کے ذخائر کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ جبکہ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔
مری ، مینگل اور بگٹی قبائل کے علاوہ بلوچستان کے دیگر اہم قبائل میں رئیسانی ، مگسی اور جمالی اور زہری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ قبیلے بھی ہمیشہ حکومت میں رہے ہیں۔ رئیسانی ،مگسی اور زہری قبائل کے سردار موجودہ حکومت کے بھی اتحادی ہیں اور بلوچستان کی حکومت انکے ہاتھ میں ہے۔ نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہیں اور انکے بھائی لشکری رئیسانی بلوچستان پیپلز پارٹی کے صدر رہے ہیں۔ نواب ذوالفقار مگسی بلوچستان کے گورنر ہیں وہ اس سے پہلے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ زہری قبیلے کے اسرار اللہ زہری سینٹر ہیں ۔
جمالی قبیلے کے میر ظفر اللہ جمالی پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انکے کزن میر تاج محمد جمالی سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کے اہم قبائل اور انکے سردار اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں اور فائز رہے ہیں اور اگر اسکے باوجود اگر بلوچستان کی پسماندگی ختم نہیں ہو سکی۔ وہاں تعلیم کی سہولتیں نہیں ہیں، یا پھر صحت کے حوالے سے سہولتوں کا فقدان ہے یا پھر بلوچ عوام کی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہو سکے تو وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ان بڑے قبائل کے سردار اور نواب بھی اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتے۔
بلوچستان میں جاری تحریک مزاحمت کو اگر دیکھا جائے تو یہ زیادہ تر انہی قبائل کے علاقے میں جاری ہے۔ بالخصوص مری، مینگل اور بگٹی قبائل کے علاقے کوہلو، ڈیرہ بگٹی‘ جعفر آباد، بولان، آواران، واشک ، بارکھان، جھل مگسی، خضدار، مستونگ، پنجگور، گوادر اور تربت کے اضلاع شامل ہیں۔اس کے برعکس پشتون علاقے جو بلوچستان کے کل رقبے کا 40 فیصد کے قریب ہیں وہاں تحریک مزاحمت کا بظاہر کوئی وجود نہیں۔
وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2007سے 2012 کی پہلے دو ماہ تک ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کے 1718واقعات ہوئے ہیں جن میں 1493بےگناہ افراد جاںبحق اور 3313زخمی ہوئے ہیں جابحق ہونےوالوں میں 277 پولیس اہلکار، 250 ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں میں غیر بلوچی آباد کار، ہزاہ اور سرائیکی افراد کی اکثریت ہے۔ جبکہ اڑھائی لاکھ آباد کار بلوچستان سے نقل مکانی کر کے جاچکے ہیں۔ جن میں اکثریت اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنئیر ز شامل ہیں۔
ایک معاصر لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل ضرور حل ہونے چاہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی ختم ہونی چاہئے۔وہاں کے عوام کا احساس محرومی ضرور ختم ہونا چاہئے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ بلوچستان کے وسائل اور معدنی ذخائر پر بلوچستان کا حق فائق سمجھا جانا چاہئے۔ اور یہ وسائل اور قیمتی ذخائر بلوچستان کی ترقی پر صرف ہونے چاہیے۔ بلوچستان کے لوگوں کےساتھ جو زیادتیاں ہوتی رہی ہیں یا ہورہی ہیں انکا تدارک ہونا چاہئے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت ہوسکتا ہے جب وفاقی اور صوبائی اداروں کے علاوہ بلوچستان کے سردار، وڈیرے اور نواب بھی ایسا کرنا چاہے۔

تبصرہ کریں