خواتین

خواتین ہی پر امن انقلاب برپا کر سکتی ہیں


منصور مہدی
benazirنرگس بڑی حساس لڑکی ہے۔ ذرا ذرا سی بات کو بہت محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اسے پتا چلا کہ اس کے ووٹ کا انداراج نہیں ہوا ، تب وہ بہت مایوس ہوگئی۔ نرگس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے اور لاہور کے ایک مضافاتی علاقے میں رہتی ہے۔ اگرچہ اس کی رہائش گاہ سے لاہور شہر آنا بہت مشکل ہے۔ سوائے چن چی کے علاوہ اور کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملتی۔
نرگس بھی ملک کی دیگر خواتین کی طرح ملک کی مجموعی صورتحال سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ بھی ملک میں تبدیلی کی خواہش رکھتی ہے۔لیکن وہ جانتی ہے کہ ملک میں تبدیلی لانے کا واحد پر امن راستہ انتخابات ہی ہیں کہ جب ووٹر کسی اچھی قیادت کو اپنے ووٹ سے منتخب کریں۔
نرگس اکثر اپنی سہیلیوں کو کہتی کہ ملک میں مثبت تبدیلی صرف خواتین ہی لا سکتی ہیں۔ اس کی اس بات پر پہلے تو اس کی سہیلیاں اس کا مذاق اڑاتی رہی مگر جب نرگس نے اعداد و شمار کا سہارا لیکر بتلایا کہ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میںآٹھ کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 802 ووٹر ہیں جن میں سے چار کروڑ 85 لاکھ 92 ہزار 387 مرد اور تین کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 خواتین ہیں۔اگر یہ تمام خواتین ووٹرز مل کر ملک میں تبدیلی کے لیے اگر کوئی اچھی قیادت کو لانے کی عملی کوشش کریں اور ووٹ ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں مثبت تبدیلی نہ آئے۔
خواتین میں سے ایک نے نرگس سے سوال کیا کہ اس کے سسر تو کہتے ہیں کہ خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔ حکومتوں کی تشکیل اور اس عمل میں حصہ لینا صرف مردوں کا کام ہے۔ نرگس مسکراتے ہوئے کہا کہ اسلام نے خواتین پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ حکومتوں کی تشکیل کے عمل میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔
نرگس نے خواتین کو بتلایا کہ اسلامی معاشرے میں خواتین اور مردوں دونوں کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم” ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ بات صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں۔ کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔
برگس نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے۔ جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آیت بتلاتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائیں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی نسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاو¿ں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
خواتین میں سے ایک نے نرگس سے پوچھا کہ باجی جیسے آپ کا ووٹ نہیں بنا تو کیا ایسی اور بھی خواتین ہیں کہ جن کے ووٹ نہیں بن سکے تو نرگس نے کہا یہی تو یہاں کی خواتین کی بدقسمتی ہے کہ انھیں کم تر سمجھ کر ملکی معاملات میں شامل نہیں کیا جاتا۔ نرگس نے بتلایا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے مرد وں کے مقابلے میں خواتین ووٹروں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ د س لاکھ کم ہے اور یہ فرق صوبہ بلوچستان کے کل ووٹروں سے تین گنا زائد ہے۔جہاں کل ووٹروں کے تعداد محض 33 لاکھ 36 ہزار 659 ہے۔الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں کل ووٹوں کی تعداد17 لاکھ38 ہزار تین سو تیرہ ہے جس میں مرد ووٹروں کی تعداد11 لاکھ 42 ہزار دو سو چونتیس جبکہ خواتین ووٹروں کی تعداد صرف5 لاکھ96 ہزار69 ہیں۔اسی طرح بعض علاقوں میں خواتین ووٹروں کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔ اس کا مطلب ہے اس بار الیکشن میں ایک کروڑ دس لاکھ خواتین حکومت کی تشکیل کے عمل میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکےںگی۔
نرگس نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں کی سیاست میں خواتین کی دلچسپی اور شمولیت ہمیشہ مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب خواتین ان معاملات میں خود سے دلچسپی نہیں لیتی تو ان کی رائے کو بھی مرد کم ہی تسلیم کرتے ہیں۔لیکن اس بات کا یہ بھی مطلب نہیں کہ خواتین کی اپنی آزادانہ رائے نہیں ہے اور یہ کہ وہ ہمیشہ مردوں کے ہی کہنے پر چلیں گی۔یہ بات اس دور میں تو سچی ہو سکتی تھی جب ووٹنگ میں مرد اور خواتین کی شرکت میں بہت بڑا فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ مگر گذشتہ دو دہائیوں میں یہ فاصلہ بہت کم ہوا ہے۔ مگر ابھی بھی اس میں بہت گیپ ہے۔ تاہم ہمارے ملک کی نسبت بھارت میں انتخابی عمل میں خواتین کا بہت حصہ ہوتا ہے۔بھارت کی کئی ریاستوں میں تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بھی ایسی بہت سے خواتین ہیں کہ جو جنرل الیکشن میں بھی باقاعدہ مردوں کی طرح حصہ لیتی ہیں۔ 2008ءکے انتخابات میں 60کے قریب خواتین نے جنرل انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے 13خواتین کامیاب ہو کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ جن میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،حنا ربانی کھر، تہمینہ دولتانہ، سمیرا ملک، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ثمینہ خالد گھرکی بھی شامل ہیں۔ جبکہ ان 60میں سے 24خواتین ایسی بھی تھیں کہ جنہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ تاہم ان میں سے صرف صائمہ اختر بھروانہ کامیاب ہوئی تھیں۔ اس بار بھی جنرل انتخابات میں بہت سے خواتین حصہ لے رہی ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کو مختلف پارٹیوں نے ٹکٹ دیے ہیں جبکہ بعض آزاد الیکشن لڑ رہی ہیں۔آزاد امیدوار کے طور پرالیکشن میں حصہ لینے والی خواتین میں قبائلی علاقے کی بادام زری اور نصرت بیگم قابل ذکر ہیں ۔ جبکہ تھر کے علاقے سے ایک ہندو خاتون ویرو کوہلی بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ ویرو کوہلی کی طرف سے اثاثہ جات کی جو لسٹ جمع کروائی گئی اس کے مطابقاس کے پاس صرف دو چارپائیاں، پانچ گدے، ایک چولہا، تھوڑے سے پکانے کے برتن اور بنک اکاونٹ میں صرف 2800روپے ہیں۔آمدہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 11خواتین اور پاکستان مسلم لیگ ن نے 7خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
نرگس نے بتایا کہ کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھتا ہے کہ جب اس میں مردو خواتین دونوں مل کر کام کریں۔ کوئی ملک اگر حقیقی معنوں میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔

خواتین ہی پر امن انقلاب برپا کر سکتی ہیں” پر ایک خیال

تبصرہ کریں