اغوا، اغوا، اغوا


منصور مہدی

تھانہ ہنجروال کے علاقے میں با اثر افراد نے 14سالہ غریب لڑکی کو اغوا کرکے محبوس کر لیا اورتقریباً 8ماہ تک زیادتی کرتے رہے اورلڑکی کے حاملہ ہو جانے پر اس کا زبردستی ایک ملزم سے نکاح پڑھوا دیا جونہی لڑکی کو موقع ملا وہ ان کے چنگل سے نکل بھاگی اور تھانہ ہنجروال میں ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دےدی مگر با اثر ملزموں کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور مظلوم لڑکی اور اسکے لواحقین کو تھانے سے نکال دیا جس پر لڑکی نے عدالت عالیہ میں رٹ دائر کردی چنانچہ عدالت کے حکم پر پولیس نے ملزموں کے خلاف مقدمہ درج لیا مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ شہادت علی نامی شخص جس کی بیوی فوت ہو چکی ہے اپنے بچوں کے ہمراہ چوہنگ کے علاقے میں رہتا ہے جس کا بڑا بیٹا ذہنی مریض ہے اور بڑی بیٹی 14سالہ صائمہ ہے جبکہ دو چھوٹے بیٹے بھی ہیں جو محنت مزدوری کی غرض سے کراچی چلا گیا تو گزشتہ سال 25جولائی2003کو جب اسکی بیٹی صائمہ گھر پر موجود تھی تو اسکی مامی حلیماں بی بی گھر پر آئی اور صائمہ کو کہا کہ اسکی نانی بیمار ہے اور بلا رہی ہے چنانچہ صائمہ اپنی نانی کی بیماری کا سن کر حلیماں بی بی کے ساتھ ٹھوکر نیاز بیگ چلی گئی جہاں ملزمان محمد اشرف ، نور ، رنگ الہی اور محمد رشید نے اسے اغوا کر لیا اور باری باری اس کے ساتھ زیادتی کرتے رہے ۔ملزموں نے مظلوم لڑکی کو تقریباً8ماہ تک اپنی تحویل میں رکھا اورجب لڑکی حاملہ ہو گئی تو انھوں نے ایک ملزم محمد اشرف کے ساتھ لڑکی کا زبردستی نکاح پڑھوا دیا ۔موقع ملنے پر ایک روز لڑکی ملزموں کی تحویل سے چھٹکارا پا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے گھر آ کر تمام حالات بتلائے ۔ملزموں کے قانونی کاروئی کے لئے تھانہ ہنجروال میں درخواست دی مگر پولیس نے با اثر ملزموں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی کرنے سے انکار کر دیا اور مظلوم لڑکی اور اس کے لواحقین کو تھانے سے نکال دیا جس پر لڑکی لاہور ہائی کورٹ میں دادرسی کے لئے رٹ دائر کردی چنانچہ عدالتی حکم پر تھانہ ہنجروال پولیس نے 10ماہ بعد ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا مگر ابھی تک پولیس نے ملزموں کو گرفتار نہیں کیا اور ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
مظلوم لڑکی کے والد شہادت علی بتایا کہ جب میں مالکوں کے کام کی غرض سے کراچی سے لاہورآیا تو گھر پر صائمہ کو دیکھ کر اس کے بارے میں پوچھا تو میری دوسری بیوی نے بتایا کہ وہ اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی ہے مجھے چونکہ ملازمت کی غرض سے اگلے ہی دن واپس کراچی جانا تھا چنا نچہ میں کراچی چلا گیا کہ چند روز بعد ہی مجھے اس واقعہ کی اطلاع ملنے پر میں واپس آیا ہوں ۔میں غریب آدمی ہوں اور پولیس میری بیٹی کو اغوا کرنے اور اسکے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزموں کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کر رہی۔
مظلوم لڑکی کے ماموں غلام عباس اور اللہ دتہ نے بتایا کہ صائمہ کی مامی حلیماں بی بی چونکہ صائمہ کو لے کر گئی تھی اس وجہ سے ہم سب مطمین رہے مگر جب صائمہ ملزموں کے چنگل سے آزاد ہو کر واپس آئی تو ہمیں اس نے سب حالات بتائے اس نے میری بیوی کو بتایا کہ محمد اشرف ، نور ، رنگ الہی اور محمد رشید اس کے ساتھ زبردستی زیادتی کرتے رہے اور اس کے نتیجہ میں وہ حاملہ بھی ہوگئی جس پر ملزموں نے اس کا نکاح ملزم محمد اشرف سے کر دیا جب ہم نکاح کی کاپی لینے یونین کونسل کے دفتر گئے تو انھوں نے ملزموں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہمیں نکاح نامے کی کاپی دینے سے انکار کر دیا اور یہ بہانہ بنایا کہ ریکارڈ کو آگ لگ گئی تھی جس میں تمام نکاح نامہ مذکور بھی جل گیا ۔ہم تھانہ میں ملزموں کے خلاف کاروائی کی درخواست دی مگر وہاں سے بھی شنوائی نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کیا تب جا کر ہمارز مقدمہ درج ہوا مگر پولیس نے کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا۔ ملزم بہت اثرو رسوخ والے ہیں جس وجہ سے وہ اب تک قانون کی گرفت میں نہیں آئے۔انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب پولیس سے دادرسی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملزموں کے خلاف جلد از جلد سخت تادیبی کاروائی کی جائے۔
زیادتی کا شکار ہونے والی صائمہ کا کہنا ہے کہ میری والدہ فوت ہو چکی ہیں جبکہ میرے والد کسی کے پاس کراچی میں ملازمت کرتے ہیں ۔میری بڑی بہن بھی فوت ہوچکی ہے میرا بڑا بھائی ذہنی مریض ہے اور دو چھوٹے کمسن بھائی ہیں مورخہ25جولائی2003کو میں گھر پر موجود تھی کہ ہماری ممانی حلیماں آئی اور اس نے بتایا کہ میری نا نی سخت بیمار ہے اور بلا رہی ہے چنانچہ میں میں بڑے بھائی اور چھوٹوں کو بتا کر ما می کے ساتھ ںیاز بیگ پنڈ چلی گئی مگر وہاں پر ملزمان محمد اشرف ، نور ، رنگ الہی اورمحمد رشید نے مجھے اغوا کر لیا اور مجھے محبوس کر لیا یہ ملزم میرے ساتھ زبردستی زیادتی کرتے رہتے ۔ میں ان کو خدا اور رسول کے واسطے دیتی مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوتا بلکہ یہ قہقہے لگاتے اور میری غربت کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ جس کو بلانا چاہتی ہو بلا لو ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔پانچ چھ ماہ میں ان کی حراست میں رہیتو اس دوران میں حاملہ ہو گئی چنانچہ انھوں نے زبردستی میرا نکاح محمد اشرف سے کر دیا ۔ ایک روز مجھے موقع ملا تو میں ان کی قید سے نکل بھاگی اور گھر آ کر تمام حالات بتائے جس پر میں اپنے والد اور ماموں کے ہمراہ تھانہ ہنجروال گئے اور ملزموں کے خلاف کاروئی کی درخواست دی مگر کوئی شنوائی نہیں جس پر ہم نے عدالت سے حکم لیا اور پرچہ درج کروایا مگر پولیس نے ملزموں کو نہیں پکڑا۔
تھانہ ہنجروال کے انوسٹیگیشن سیل کے محرر اکرم نے بتایا کہ تفتیشی سیل کے انچارج انسپکٹر ذوالفقار اور اس کیس کے تفتیشی افسر افتخار احمد اے ایس آئی اس وقت تھانے میں موجود نہیں ہیں جبکہ اس کیس کے بارے میں محرر نے بتایا کہ ملزموں کو گرفتار کرنے کی بہت کوشش کی جارہی ہے کیونکہ وہ روپوش ہو چکے ہیں جونہی سراغ ملا توانھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

اغوا، اغوا، اغوا” پر 2 خیالات

  1. پنگ بیک: My Stories » Blog Archive »

  2. والدین 6 ماہ سوئے رہے مقدمہ کیوں نہ درج کروایا ۔ 6 ماہ پہلے اغواء ہوکر زیادتی کا شکار ھوتی رہی تو اس کی خبر لینے والا کوئی نہ تھا۔ حمل ہوگیا نکاح ہوگیا سب کہاں مر گیے تھے
    سٹوری کچھ اور لگتی ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Leave a reply to ارشد ملک جواب منسوخ کریں