تیزاب کی شکار


منصور مہدی

خطرناک کیمیکلز کی خرید و فروخت سے متعلق واضع قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے لاہور کی سڑکوں پر جگہ جگہ نہ صرف تیزاب کی دوکانیںکھل گئی بلکہ تیزاب سے جھلسنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ۔بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی اور اس میں سلفیورک ایسڈ ، نائٹرک ایسڈ اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے استعمال کی وجہ سے لاہور میں تیزاب کی کھپت 20سے25ٹن روزانہ ہو گئی ۔تیزاب کے غیر محفوظ استعمال کی وجہ سے ان مارکیٹوں سے اٹھنے والے تیزابی بخارات نے ملحقہ آبادیوں کے لوگوں کاسانس لینا مشکل کر دیا بلکہ آنکھ ، ناک ، گلے ، سانس کی مختلف بیماریوں سمیت جلدی امراض میں مبتلا کر دیا۔ لاہور میں بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کی وجہ سے تیزاب کی کھپت بڑھ گئی کیونکہ ہر وہ صنعت کہ جس میں میٹل کا کسی بھی ظرح سے استعمال ہوتا ہے وہاں پر تیزاب بھی ضرور استعمال ہوتا ہے ۔میٹل انڈسٹری اور تیزاب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جس وجہ سے لاہور کی مختلف مارکیٹوں جن میں سرکلر روڈ ، دوموریہ پل ، شاہدرہ ، بند روڈ ، داتا دربار مارکیٹ کے علاوہ دیگر گنجان آبادیوں میں بھی تیزاب کی کھلی فروخت ہو رہی ہے اور تیزاب کے بڑے بڑے ڈرم فٹ پاتھوں پر پڑے ہوئے ہیں جبکہ ان تیزاب کے بھرے ڈرموں سے کئی لیٹر تیزاب بہہ کر فٹ پاتھوں اور گزر گاہوں پر آ جاتا ہے جن سے بخارات اڑ کر کھلی فضا میں شامل ہو رہے ہیں اور جن علاقوں میں یہ تیزاب فروخت ہو رہا ہے وہاں کے مکین مختلف بیماریوں میں بمتلا ہو رہے ہیں۔ لاہور بھر میں ڈھلائی سازی، سوہا بازار کے سنیاروں کی دوکانوں ، گلی محلے میں نکل پالش اور آرٹیفیشل زیورات، اینوڈائزنگ اور دیگر میٹل انڈسٹری سے متعلقہ دوکانوں اور کارخانوں میں یہ تیزاب کثرت سے استعمال ہو رہا ہے اور اس تیزاب کو استعمال کرنے والے ورکر زاس کے استعمال کی احتیاطی تدابیر سے ناواقفیت کی بنا پر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں جن میں متعد افراد کو جو ہاتھوں سے استعمال کی وجہ سے ان کی جلد ناکارہ ہو گئی اور چہرے پر قبل از وقت جھریاں پڑ گئی اور سانس کے ذریعے بخارات اندر داخل ہو کر ناک اور گلے کی بیماریوں کے مریض بن گئے علاوہ ازیں سونے اور چاندی کی جیولری بنانے میں تیزاب کے استعمال کی وجہ سے بے شمار عورتوں کے کانوں ، ہاتھوں ، بازوں ۔ اگلیوں ، ناک اور گلے میں مختلف قسم کی جلدی امراض(الرجی) پھیل گئی۔ اس کے علاوہ نکل پالش کا کام کرنے والے کمسن بچوں کی آنکھوں کی بینائی تیزابی بخارات کی وجہ سے کمزور ہو گئی جبکہ اس تیزاب کے ذریعے کام کرنے والے ورکروں کے ہاتھوں میں دستانے ، پاﺅں میں لانگ شوز ، منہ پر ماسک نہ پہنے کی وجہ سے جلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور لاہور بھر میں بڑی ملوں اور کارخانوں اور گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے منی کارخانوں میں تیزاب کی حفاظتی تدابیر کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں اور نہ ہی کوئی مالک اپنے ملازموں کو حفاظتی کٹ یا میڈئکل الاﺅنس نہیں دیتا یہاں تک کے اپنی ہمت اور جوانی کے زور پر بڑی بڑی ملوں اور کارخانوں میں جو ورکرز کام کرتے ہیں اور جب اس تیزاب کی وجہ سے یہ بیمار ہو جاتے ہیں تو مالک ان ملازموں کو نوکریوں سے نکال دیتے ہین جس پر آجتک کسی بھی سماجی تنظیم یا کسی ذمہ دار سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی طرف سے کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔
ڈاکٹر سعید الہی کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں تیزاب فروخت کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آیا اس کے پاس لائسنس ہے یا نہیں اگرچہ تیزاب کی مینوفیکچرنگ اور امپورٹ کا قانون تو موجود ہے مگر پرچون اور ہول سیل کی دوکانوں کے لئے کوئی واضع قانون سازی نہیں ہے اگر کوئی بچہ بھی تیزاب خریدنے کے لئے ان دوکانوں پر جائے تو یہ دوکاندار اسے بھی تیزاب دے دیتے ہیں اور یہ نہیں پوچھتے کہ اس تیزاب کا کیا کرنا ہے۔کاٹیج انڈسٹری میں تیزاب کا بہت استعمال ہوتا ہے مگر قانون نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اس کے استعمال طریقہ کار مقرر نہیں ہے اسی طرح تیزاب کی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے کوئی محفوظ طریقہ کار مقرر نہیں اور یہ لوگ جس طرح چاہے لے جاتے ہیں اور سارے راستے یہ تیزاب گرتا ہے اور اس سے کئی راہگیر زخمی بھی ہو جاتے ہیں مگر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی کہ آخر یہ اپنی فریاد کس سے کریں۔تیزاب پھینک کر جھلسانے والے ملزموں کی قانون میں سزا صرف7سال ہے ایسے جرائم میں سزائے موت ہونی چاہیے اور ساتھ ہی تیزاب فروخت کرنے والے کو بھی سزا دینا ضروری ہے جس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔تیزاب سے جھلسانے کے زیادہ تر واقعات پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہوتے ہیں جبکہ یورپ میں ایسے واقعات نہیں ہوتے۔ ایسے خوفناک واقعات سے بچنے کے لئے نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ سماجی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ مشترکہ کوشش کریں اور ایسی قانون سازی کی جائے غیر قانونی تیزاب کی فروخت بند ہو سکے اور لائسنس یافتہ اداروں کو بھی اس کے فروخت کا مکمل حساب کتاب رکھنا ضروری ہو جبکہ اکثر و بیشتر دوکانوں کی چیکنگ بھی ہونی ضروری ہے تاکہ بغیر لائسنس کام کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جا سکے اور ان کی دوکانیں سیل کر کے مال ضبط کر لینا چاہیے۔ تیزاب سے اٹھنے والے بخارات سے بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہے جن میںزیادہ تر جلدی بیماریاں شامل ہیں۔
ٹاﺅن ٓافیسر ریگولیشن آغا ہمایوں حفیظ نے بتایا کہ تیزاب کی فروخت بھی حکومت کے قانون کے مطابق پروفیشنل لائسنسنگ شیڈول کے مطابق آ تی ہے جس کے تیزاب فروخت کرنے والی دوکانوں پر کلیکٹر ، انسپکٹرز موقع پر جا کر چیکنگ کرتے ہیں اور حکومت کی مققرر کردہ فیس کے تحت سالانہ لائسنس بناتے ہیں اور اگر کوئی غیر قانونی تیزاب فروخت کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کا لوکل گورنمنٹ آرڈینسن 141اور145کے تحت چالان کر کے جوڈیشنل مجسٹریٹ کی عدالت میں بھیجا جاتا ہے جہاں اسے لائسنس بنانے کی ہدایت کے علاوہ جرمانے کا ساتھ سالانہ فیس جمع کروانے کا حکم ہوتا ہے ایک اندازے کے مطابق تیزاب بیچنے والے رجسٹرڈ افراد کے غیر رجسٹرڈ لوگ بھی تیزاب فروخت کرتے ہیں جن کے لئے بھی لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کاروئی کی جاتی ہے۔
کیمیکل انجینئر چوہدری زاہد نے بتایا کہ تیزاب کی کل چھ قسمیں ہیں جن میں سلفیورک ایسڈ(گندھک کاتیزاب)، نائٹرک ایسڈ ( شورے کا تیزاب ) ، ہائیڈروکلورک ایسڈ ( نمک کا تیزاب ) ، ہائیڈرو فلورک ایسڈ ، فاسفورک ایسڈ ، ایسٹرک ایسڈ شال ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک پہلے تیزاب ہیں بازار میں تمام تیزاب کی فروخت سرعام ہے جن میں لائسنس شدہ تیزاب فروخت کرنے والوں کے علاوہ بغیر لائسنس بھی تیزاب فروخت کرتے ہیں یہ تما م میٹل انڈسٹری م99فیصد استعمال ہوتا ہے اور اس کے استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف لاہور میں روزانہ20سے25ٹن استعمال ہے یہ زیادہ تر میٹل کو صاف کرنے کے کام آتا ہے اور جسٹ کی دھلائی میں استعمال ہوتا ہے اور ارٹیفیشل جیولری کر بھی صاف کرنے کے دوران تیزابی بکاروت اڑتے ہیں جن سے بیماریاں پھیلتی ہیں جب کہ تیزاب کا کام کرنے والے ورکروں کے لئے پاﺅں میں لانگ شوز ، ہاتھوں میں دستانے ، اور کوٹ ، ماسک اور سر پر ٹوپ ضروری ہو نا چاہیے ۔ تیزاب کی زیادہ تر فروخت سرکلر روڈ ، شاہدرہ ، دوموریہ پل اور داتا دربار بلال گنج کے علاقے میں ہوتی ہے۔
تیزاب کے ذریعے جھلسانے کے بعض بڑے واقعات بھی ہو چکے ہیں جن جاوید اقبال مغل نامی ایک جنونی قاتل نے 100 کے قریب بچوں کو زیادتی کرنے کے گندھک کے تیزاب کے ڈرموں میں ڈال کر مار دیا تھا جبکہ پنجاب کے سابقہ گورنر غلام مصطفےٰ کھر کے بیٹے نے بھی اپنی بیوی کو تیزاب سے جھلسا دیا تھا۔ تیزاب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے اب تک بے شمار واقعات ہو چکے ہیں 2000 میں پنجاب میں تیزاب سے جھلسانے کے 4واقعات درج ہوئے،2001میں 9واقعات درج ہوئے2002میں 46واقعات درج ہوئے اور2003میں تیزاب سے جھلسانے کے 59واقعات درج ہوئے جبکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں جو درج نہ ہو سکے۔ تیزاب سے جھلسائی جانے والی ایک لڑکی زرینہ نے بتایا کہ جب اس پر تیزاب پھینکا گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ جہنم کی آگ میں جل رہی ہو۔

تبصرہ کریں