حسینی برہمن


در حسین پرملتے ہیں ہرخیال کے لوگ    یہ اتحادکامرکزہے آدمی کے لئے

منصور مہدی

ہندووں میں ایک خاندان یا فرقہ حسینی برہمن بھی کہلاتا ہے جن کے آباو اجداد ہندوستان سے جاکر میدان کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ معروف لکھاری انتظار حسین اپنے انگریزی کالم Brahmans in Karbalaمیںلکھتے ہیںکہ وہ پہلے حسینی برہمن کو صرف ہندو افسانہ (Legend) ہی سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے قیام دہلی کے دوران کسی محفل میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کو جھٹلا دیا۔ وہیں اس محفل سے ایک خاتون مدبر پروفیسرنونیکا دت اٹھی اور انھوں نے کہا کہ وہ خود حسینی برہمن ہے اور ان کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ بعد میں اپنے ساتھ اپنے بزرگوں کے بارے میں لکھی گئی دو انگریزی کی کتابیں بھی لے کر آئیں جو بہت عرصہ پہلے شائع ہوئی تھیں خاتون نے بتایا کہ ان کے جد امجد راہیب دت اپنے سات بیٹوں اور دو دوسرے برہمنوں کے ساتھ مل کر ہندوستان سے اس مشن میں حصہ لینے گئے تھے۔ ان میں سے ایک یعنی راہیب دت بچ کر واپس آئے۔ وہ افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے اور سیالکوٹ کے ایک گاو ں ورن وتن Vatan Viran کے مقام پر آباد ہوئے۔ تقسیم کے بعد یہ خاندان بھارت چلا گیا اور یہ لوگ مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ اس نے مزید بتایا کہ مشہور فلمی اداکار سنیل دت کا تعلق بھی انہی حسینی برہمنوں کے خاندان سے ہے جس کی تصدیق فلمی اداکار منوج کمار نے بھی کی۔ بلکہ نرگس کے والد بھی پہلے حسینی برہمن تھے بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ انھوںنے یہ بھی بتایا کہ راہیب دت واپسی پر اپنے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام کا ایک بال مبارک بھی لے کر آئے تھے۔ جو کشمیر میں کسی جگہ موجود ہے۔ انتظار حسین نے نونیکا دت سے پوچھا کہ گویا آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں۔ ہم ہندو برہمن ہی ہیں مگر حسینی ہونے کے ناطے ہم مندروں وغیرہ میں نہیں جاتے نہ دوسری ہندووانہ رسومات ادا کرتے ہیں اور یہ کہ وہ محرم کے دنوں میں امام حسین علیہ السلام کا ماتم بھی کرتے ہیں اور اپنے شہیدوں کی یاد بھی مناتے ہیں۔
واقعہ کربلاکے عظیم المیہ نے حق پسند انسانی معاشرے اورانسانی تہذیب کو ہر دور میں متاثرکیا ہے۔ یہی سبب ہے ہندوستانی معاشرہ میں شہید انسانیت امام حسین کی یاد نہ صرف مسلم معاشرہ کی تہذیبی وتاریخی روایت رہی ہے بلکہ غیرمسلم معاشرہ میں بھی انسانیت کے ا س عظیم رہنماکی یاد بڑی عقیدت واحترام کے ساتھ عصرحاضرمیں بھی قائم ہے۔مشترکہ تہذیب کے گہوارہ ہندوستان میں ہندوﺅںکی امام حسین سے غیر معمولی عقیدت کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔
ہندوستان کے سابق رجواڑوںمیں بھی ہندوحضرات کے یہاں امام حسین ؑسے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان،گوالیار،مدھیہ پردیش قابل ذکر ہیں۔ جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیرمعمولی عقیدت تھی۔ پروفیسررفیعہ شبنم نے اپنی کتاب”ہندوستان میں شیعیت اورعزاداری” میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ ”وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقدکی جاتی ہے جہاں پہلے ا س رانی کا قلعہ تھاجس نے امام حسین ؑ سے حق پرڈٹے رہنے کاسبق حاصل کیا تھا ”۔منشی جوالہ پرشاد اخترلکھتے ہیں کہ”صوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس ؑ کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھ کے سرہے”۔اودھ سلطنت میں لکھنﺅکی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ محرم کی مجلسوں اورجلوسوں میں ہندوﺅںکی شرکت وعقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اورہندومسلم اتحادکوفروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مسزمیرحسن علی نے لکھنﺅ کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنودکی امام حسین سے غیرمعمولی عقیدت واحترام کا ذکراپنی ایک تحریرمیں کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ لکھنﺅکا مشہور روضہ ”کاظمین” ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مندجگن ناتھ اگروال نے تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھاﺅلال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنﺅکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھاﺅلال نے تعمیرکرایا تھا۔راجہ بلاس رائے اورراجہ ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیرکرائے اوران میں علم اورتعزیے رکھے۔گوالیارکے ہندومہاراجاﺅںکی امام حسین سے عقیدت خصوصی طور پرقابل ذکرہے جوہرسال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان وشوکت سے کرتے تھے۔”مدھیہ پردیش کے علاقہ گونڈوانہ کے ضلع بیتول میں بلگرام خصوصًا بھاریہ نامی قصبہ میںہریجن اوردیگرہندوحضرات امام حسین سے بے پناہ عقیدت ومحبت کامظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے اہم اورضروری کاموںمیںکامیابی کے لئے حسین بابا کا تعزیہ اٹھانے کی منت مانتے ہیں”۔
عصرحاضرکے نامورصحافی جمناداس اختر نے ہندوﺅں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھاہے۔حسینی برہمنوں میںدت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوعقیدت مندوں کا تعلق زیادہ ترصوبہ پنجاب سے ہے حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام ؑ میںاپنے بیٹوںکوقربان کردیا تھا۔راہیب کوسلطان کاخطاب بخشاگیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یاحسینی پنڈت بھی کہاجاتا ہے وہ امام حسین کے تقدس واحترام کے بڑے قائل ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ”میراتعلق موہیالیوںکی دت ذات سے ہے اورہمیں حسینی برہمن کہاجاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سو گ مناتے ہیں۔کم ازکم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایاجاتا ہے۔ سری نگرکے امام بارڑے میں حضرت امام حسین کا موئے مبارک موجود ہے جوکابل سے لایاگیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سوسال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا”۔
کشمیرسے کنیا کماری تک پھیلے ہوئے ہندوستان میں ماہ محرم آتے ہی یہاںکے مختلف شہروں،قصبوں، پہاڑی بستیوں اوردیہاتوں میںعزاداری سیدالشہداکی مجالس اور جلوس عزامیں مشترکہ تہذیب کے نمونے دیکھنے کوملتے ہیں جس میں ہندوعقیدت مند مسلمان عقیدت مندوں کے ساتھ شریک عزاہوتے ہیں۔کہیں ہندوحضرات عزاداروںکے لئے پانی وشربت کی سبیلیں لگاتے ہیں توکہیں عزاخانوں میں جاکراپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اوراپنی منتیں بڑھاتے ہیں اکثردیکھاگیا ہے کہ عقیدت مندہندوخواتین اپنے بچوںکوعلم اور تعزیوںکے نیچے سے نکال کرحسین بابا کی امان میںدیتی ہیں۔
آندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفردانداز میں تیلگوزبان میں دردناک لہجہ میں پرسوز المیہ کلام پڑھ کرکربلاکے شہیدوںکواپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندوذات کے لوگ کربلاکی جنگ کامنظرنانہ پیش کرتے ہیںاور ان کی عورتیں اپنے گاﺅںکے باہرایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں ۔یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پراسے کوستی ہیں اوراپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوںکے ذریعے کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندوﺅںکی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ مہاراجے جوہندوسوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سروپابرہنہ نکلتے تھے اورتعزیہ پرنقدی چڑھایاکرتے تھے۔

ashura-low-res-29-of-34

پریم چندکامشہورڈرامہ”کربلا”حق وباطل سے پردہ اٹھاتاہے۔ اسی طرح اردوادب میں ایسے ہندوشاعروںکی تعدادکچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکہ الآرامنظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا سے انسانیت کے اعلی کرداروںکی خوشہ چینی کی ہے۔ایسے قابل ذکرشعرابیجاپورکے رامارواﺅ، مکھی داس،منشی چھنولال دلگیر،راجہ بلوان سنگھ،لالہ رام پرشادبشر،دیاکشن ریحان، راجہ الفت رائے،کنوردھنپت رائے ،کھنولال زار،دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندرپال صابرجوش ملیشانی منشی گوپی ناتھ امن ، چکبست، باواکرشن مغموم، کنورمہندرسنگھ بیدی سحر،کرشن بہاری،ڈالٹردھرمیندرناتھ، ماتھرلکھنوی، مہیندرسنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کاکلام امام حسین سے ان کی غیرمعمولی عقیدتوںکا مظہرہے۔
بھارتی لکھاری یوگندر سکند دی ملی گزٹ اور راکیش شرما اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے معروف مورخ اور تاریخ دان سیسر کمار مترہ اپنی کتاب The Vision of Indiaکے صفحہ 183پر لکھتے ہیں کہ اسلام سے قبل بھی ہندوستان اور عرب ممالک میں تجارتی تعلقات تھے اور بہت سے ہندو تاجر جو مال تجارت ہندوستان سے عرب لیجاتے تھے وہ عرب میں مقیم تھے۔اور اعلان رسالت کے بعد بھی ان ہندووں میں سے بیشتر افراد رسول خدا کی محفلوں میں شرکت کرتے ، اس طرح ان کے تعلقات خاندان رسول سے قائم ہوا۔ جب اکتوبر680عیسوی میں واقعہ کربلا پیش آیا تو راہیب دت نامی ہندو تاجر امام حسین کی فوج میں اپنے سات بیٹوں شاس رائے، شیر خا، رائے پن، رام سنگھ، دھارو او ر پورو اور دو دیگر برہمنوں کے ساتھ شامل ہوا اور یزیدی لشکر سے جنگ کی۔ امام حسین علیہ السلام نے راہیب کو سلطان کا خطاب بھی عطا کیا۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا اپنی اشاعت 21جنوری2008کو، حسینی برہمن، کے عنوان سے لکھتا ہے کہ محرم کے ایام ہندوستان میں بڑی عقیدت سے منائے جاتے ہیں خصوصاً راجھستان، پنجاب اور مدھیہ پردیش کہ جہاں پر حسینی برہمنوں کے کئی خاندان اور ان کے ماننے والے آباد ہیں۔یہ لوگ دت بھی کہلاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بزرگ راہیب اور ان کے بیٹوں نے 10اکتوبر680عیسوی میں کربلا کے میدان میں حسینی فوج کے ساتھ مل کر یزیدی لشکر سے جنگ کی۔ یہ لوگ عاشورہ کے روز واقعہ کربلا کا نقشہ کھینچتے ہیں ، ان کی عورتوں اور بچوں نے بینر اٹھا رکھے ہوتے ہیں جن پر امام حسین اور راہیب کی یاد میں کلامات درج ہوتے ہیں ۔یہ بلند آواز میں یزیدی ظلم کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ ماتم بھی کرتے ہیں، بلیڈ سے اپنا سینہ اور زنجیروں سے کمر کو زخمی کرتے ہیں اور نذر نیاز بھی دیتے ہیں۔

Muharram Procession in front of Hawa Mahal-Jaipur

Published

21-06-2010

حسینی برہمن” پر 2 خیالات

  1. A very well researched article. I have already met a Hussaini Birahman during my last visit of India in 2012. He is a famous writer and his name ib Nand Kishore Vikram.

تبصرہ کریں