الیکشن / بار بار جیتنے والے سیاستدان / سینئر رہنما و سیاستدان

مخدوم جاوید ہاشمی


سینئر رہنما و سیاستدان

 

مخدوم جاوید ہاشمی یکم جنوری 1948 کو پیدا ہوئے۔ پہلے ایم اے پولیٹکل سائنس کیا اور پھر فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔

مخدوم جاوید ہاشمی زمانہ طالبعلمی میں جماعت اسلامی کی برادر مگر خود مختار طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم رکن رہے اورسال 1971 میں پنجاب یورنیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاوید ہاشمی مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہیں وہ اپنا مرشد و رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے مولانا مودودی سے کہا کہ میں تعلیم اور جمعیت سے فارغ ہوچکا ہوں مگر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار نہیں کررہا۔ میرے لیے دعا کریں۔ مولانا مودودی نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھادئے۔ اور دعا کی کہ یا اللہ اس نوجوان سے اپنے دین کی خدمت لے لے۔

روایت شکن ہونے کا تاثر رکھنے والے جاوید ہاشمی نے روایتی سیاست کے تقاضے بھی بھرپور نبھائے۔ عملی سیاست میں طویل کیریئر کے حامل مخدوم جاوید ہاشمی نے اسٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے تناظر میں 1974 میں چلنے والی ’بنگلہ دیش نامنظور‘ تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ پھر بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن میں بھی پیش پیش رہے۔

دوسری طرف عملی سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے ’عملی‘ فیصلہ کیا اور اپنے ایک صحافی دوست کے مشورے پر جماعت اسلامی کے بجائے تحریک استقلال میں شامل ہوگئے۔ ا±س وقت اصغر خان پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا ’امکان’ بن کر سامنے آئے تھے اور سمجھا جاتا تھا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کا سیاست میں کوئی مقابل ہوسکتا ہے تو وہ اصغر خان ہی ہے۔

1978 میں پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امور نوجوانان مقرر ہوئے۔1985 میں غیر جماعتی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد اس اپوزیشن گروپ کے ممبر بنے جس نے ضیا الحق کی خواہشات کے برخلاف سید فخر امام کو سپیکر قومی اسمبلی منتخب کرایا۔

1988 میں میاں نواز شریف کی پارٹی میں شمولیت کے بعد ان کی مسلم لیگ نواز کے ساتھ ایک طویل اننگز رہی۔ اس دوران وہ پہلے وزیر مملکت اور پھر وفاقی وزیر بھی رہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کے دوران جب شریف خاندان کو ایک معاہدہ کے تحت ملک اور ملکی سیاست سے بے دخل کردیا گیا تو مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ نواز کے صدر بنا دیے گئے اور میاں صاحب کی وطن واپسی تک وہ اِس عہدے پر متمکن رہے۔

اس دوران جاوید ہاشمی پر بھرپور آزمائش کا دور بھی آیا جب 2003 میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے مبینہ طور پر فوج کے جونئیر افسران کی جانب سے سینئر افسران کے خلاف لکھا جانے والا ایک خط پیش کیا اور چند سوالات ا±ٹھائے۔ اِس کی پاداش میں ہاشمی صاحب کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابندِ سلاسل کردیا گیا اور وہیں ان پر مقدمہ بھی چلتا رہا۔ چار اگست 2007کو سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ اور انہیں کوٹ لکھپت جیل سے رہا کر دیا گیا۔ تمام سیاسی حلقوں نے ان کی رہائی کا خیر مقدم کیا۔

جاوید ہاشمی نے پاکستان مسلم لیگ ن چھوڑ کر 24 دسمبر، 2011 کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور پارلیمان سے استعفی دے دیا۔ 2013کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 48اسلام آباد اور این اے 149ملتان سے حسہ لیا اور دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، بعد ازاں این اے 48کی نشست چھوڑ دی۔

31اگست 2014کو عمران خان سے اختلافات کے سبب پاکستان تحریک انصاف بھی چھوڑ دی، اور ساتھ ہی قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا، اس سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی نے بھی حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ابھی حال ہی میں پھر نواز شریف سے ملاقات کی ہے، مگر پارٹی میں شامل نہ ہو سکے ہیں۔

تبصرہ کریں