نوشی گیلانی


منصور مہدی

سیّد نجم سبطین حسنی لکھتے ہیں کہ اسے ہماری تنگ نظری کہا جائے یا ایجاب و قبول کے رحجانات کی مجبوری کہ1980 کی دہائی کے وسط تک فیض احمد فیض ،ناصر کاظمی، شکیب جلالی،احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، جَون ایلیا، عبیداللہ علیم ، بسمل صابری ، پروین شاکر اور محسن نقوی جیسے شعرائے غزل کا مسلسل اور والہانہ مطالعہ ہم سے یہ توفیق سلب کر چکا تھا کہ ہم کسی اور کو بھی اپنی “ادبی شریعت “کا بے عیب شاعر قرار دے سکیں۔ ادب جوئی کے اسی عہدِ جنوں میں ہماری طرح بہت سے حلقے پروین شاکر کو جدید نسوانی لہجے اور اسلوب کی پہلی اور آخری شاعرہ خیال کرتے تھے۔ نوجوان نسل کیلئے تو” خوشبو” جیسی مثالی کتاب کا حقیقی بدل خود پروین شاکر کی دوسری کتا بیں بھی نہ بن سکیں۔ یہ تمام خیالات مبنی بَر حقائق توتھے ہی ،مگر اسی عرصے میںنئے شعراءکی آنے والی کتابوں کی بھیڑمیں ”محبتیں جب شمار کرنا” کے ساتھ نوشی گیلانی کا نام منظرِ عام پر آیا تو ادبی حلقوں کے دروازے خود بخود اس کی پذیرائی میں کھلتے چلے گئے۔ سید محسن نقوی نے ایک گفتگو میں کہا کہ ” نوشی گیلانی ایسی منجھی ہوئی شاعری کر رہی ہے کہ اسکے لہجے کی انفرادیت عہد آئندہ کی نمائندہ شاعرہ کہلانے کی تمام آثار سے لبریز ہے”۔
نوشی گیلانی14مارچ 1964کو بہاولپور میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے بہاولپوریونیورسٹی سے گریجویشن کی جبکہ اردو ادب ، اقبالیات اور فارسی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1995میں وہ امریکہ چلی گئی اور2008میںشادی کے بعد آسٹریلیا چلی گئی۔نوشی غزل کی شاعرہ ہیں ۔ ان کی پانچ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جبکہ ان کی بہت سے نظموں کے انگریزی میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔ نوشی گیلانی نے آسٹریلین شاعر Les Murray کی شاعری کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ نوشی گیلانی اردو اکیڈمی آسٹریلیا کی شریک بانی بھی ہیں۔
محسن نقوی نوشی گیلانی کی شاعری کے حوالے کہا کرتے تھے کہ اس عہد میں ہم نے سیکھا کہ کسی کتاب کے بار بار چھپنے کی بجائے اس کتاب کا ہاتھوں کے ہجوم میں مصروفِ گردش رہنا شاعری کی دیر پا زندگی کا حقیقی ثبوت ہوتا ہے۔ جو کتاب اپنے ہی عہد میں سانسیں نہ لے سکے وہ اپنے شاعر کو کہاں تک زندگی فراہم کر سکتی ہے۔ہاتھوں میں گردش کرنے کی صلاحیت نوشی کی کتاب میں موجود تھی۔ایک جگہ پر نجم سبطین لکھتے ہیں کہ حقیقتاََ ہم نے محسوس کیا کہپروین شاکر کی “خوشبو” کو پڑھنے کے بعد نوجوان شاعری کے شہرِ جمالیات میں جو خلا اور سناٹا پھیل رہا تھا وہ نوشی گیلانی کی شاعری نے تقلید ِ محض سے ہٹ کر اپنے امتیازی لب و لہجہ کے ذریعہ سے محسوسات کی اس کمی کو کافی حد تک دور کر دیا تھا۔
روہی کی زرخیز کوکھ سے پھوٹنے والی غزلوں میں نوشی نے شہرِ محبت کی خواب پرست آنکھوں کو پتھرانے سے محفوظ رکھنے کیلئے ان گنَت خوشنما منظروں کا رسد فراہم کیا۔ اس کی شاعری کو پڑھتے ہوے انکشاف ہوتاہے کہ زلفوں میں رکھی ہوئی شام، ہوا کی سرگوشی، چاندنی رات میں نہائی ہوئی ریت، پیاس کا دریا،ٹیلوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوے خواب، صرصر کی چاپ سے چونکی ہوئی ہرنیوں کی چَوکڑیاں ، اداس موسم کی برف دھڑکنیں، بچھڑی ہوئی تمازتیں، پانیوں میں اترتے ہوے سرمئی سائے ،آبلوں سے رَستی ہوئی وفا ،۔۔۔ اور اِن جیسے کئی دل آویز خاکے،استعاریاور احساسات تجریدی مصوّری سے کہیں زیادشاعری کے ذریعہ دیکھے ، چھو ئے اور سمیٹے جا سکتے ہیں۔نوشی کی اصل ذات اس کی شاعری ہے اور فکری حسب و نسب کے منظر نامے میں نوشی گیلانی ایک ادب نوش، علم پوش اور تہذیب کوش شخصیت کا نام ہے۔ اس کا کاغذ پر لکھا ہوا شعر اسی کے لہجے میں بولتا ہے کیونکہ وہ اپنے اشعار میں اپنا لہجہ اور لہجے میں سوزِ دروں گھولنے کا ہنر جانتی ہے۔
نوشی کے یہاں صرف جذبات کی جلد باز ترجمانی کا نام شاعری نہیں ہے۔بلکہ وہ قدیم و جدید اردو ادب، عالمی ادب، تہذیبی ، تاریخی ، اور روحانی مکاتبِ فکر سے بھی متوازن استفادہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ” ہوا چپکے سے کہتی ہے” اس کی بلوغتِ فکر اور بلاغتِ بیان دونوں کے وِجدان کا حاصل ہے۔

نوشی گیلانی کی شائع ہونے والی کتابیں درج ذیل ہیں۔
محبتیں جب شمار کرنا1993،اداس ہونے کے دن نہیں ,1997پہلا لفظ محبت لکھا 2003، ہم تیرا انتظار کرتے رہے 2008،اے میرے شریک رسائل جاں2008میں شائع ہوئیں۔

یوں تو بہت سے اعزاز ناشی گیلانی کے حصے میں آئے مگر خواجہ فرید ایوارڈ بھی ان کے حصے میں آیا۔

منتخب کلام

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے
کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے

اس معرکہ عشق میں اے اہلِ محبت
آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کہ جائے

یہ دل کہ ا±سی ز±ود فراموشی پہ مائل
اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے

ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق
مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے

یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں
کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اَب کس سے کہیں اور کون س±نے جو حال تم±ھارے بعد ہ±وا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہ±وا

یہ ہجر ہَوا بھی د±شمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہ±وا

اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، ک±چھ یاد نہیں سب بھ±ول گئے
اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہ±وا

وہ اپنی گاو¿ں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہ±وا یا شاد ہ±وا

بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہ±وا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدن کی سرزمین پر تو حکمران اور ہے
مگر جو دل میں بس رہا ہے مہربان اور ہے

جو م±جھ سے منسلک ہ±وئیں کہانیاں ک±چھ اور تھیں
جو دِل کو پیش آئی ہے وہ داستان اور ہے

یہ مرحلہ تو سہل تھا محبتوں میں وصل کا
ابھی تمہیں خبر نہیں کہ امتحان اور ہے

وہ دن کدھر گئے مِرے وہ رات کیا ہوئی مِری
یہ سرزمین نہیں ہے وہ یہ آسمان اور ہے

وہ جس کو دیکھتے ہو تم ضرورتوں کی بات ہے
جو شاعری میں ہے کہیں وہ خ±وش بیان اور ہے

جو سائے کی طرح سے ہے وہ سایہ دار بھی تو ہے
مگر ہمیں ملا ہے جو وہ سائبان اور ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشک اپنی آنکھوں سے خ±ود بھی ہم چھ±پائیں گے
تیرے چاہنے والے شور کیا مچائیں گے

ص±بح کی ہَوا تجھ کو وہ ملے تو کہہ دینا
شام کی منڈیروں پر ہم دیئے جلائیں گے

ہم نے کب ستاروں سے روشنی کی خواہش کی
ہم تمہاری آنکھوں سے شب کو جگمگائیں گے

ت±جھ کو کیا خبر جاناں ہم ا±داس لوگوں پر
شام کے سبھی منظر ا±نگلیاں اٹھائیں گے

ہم تری محبت کے ج±گنوو¿ں کی آمد پر
تِتلیوں کے رنگوں سے راستے سجائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا
بالآخر ہر د±کھ کو سہنا پڑ جائے گا

وقت کی گردش میں آئے تو جان لیا ہے
جھ±وٹی بات کو سچّی کہنا پڑ جائے گا

ا±س کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک
آنسو بن کر آنکھ سے بہنا پڑ جائے گا

جس لہجے کی خ±وشبو ہر پَل ساتھ رہی ہو
اَسے بھی اب بیگانہ کہنا پڑ جائے گا

تبصرہ کریں