خواتین / عورت کہانی

شوہر کیسا ہو ؟


 

ساتھی کی کمزور یوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی چاہیے کیونکہ آئیڈیل اور بے عیب مرد اس عالم ہستی میں کہیں نہیں مل سکتے

منصور مہدی

شوہر کیسا ہونا چاہیے ؟ یہ فیصلہ خوشگوار احساسات رکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے چند مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔شادی چونکہ عمر بھر کا معاملہ ہے اس لیے ہر معاشرے میں اس بارے میں فیصلہ کرتے وقت بہت سے پہلووں پر خوب سوچ بچار کی جاتی ہے۔
حال ہی میں اس حوالے سے ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی شادی شدہ زندگی خوشگوار اور دیرپا ہوتو پھر آپ کو ایسے لڑکے کا انتخاب کرنا چاہیے جو آپ سے کم پڑھا لکھا اور کم سمجھدار ہو اور عمر میں بھی لڑکی سے کم از کم 5سال زیادہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں لڑکیلڑکے سے زیادہ پڑھی لکھی اور سمجھدارہو اور عمر میںبھی کم ازکم پانچ سال چھوٹی ہو۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے سائنس دانوں نے خوشگوار ازدوجی زندگی کا زار جاننے کےلیے ایک ہزار سے زیادہ ایسے جوڑوں پر تحقیق کی جو یاتو کم ازکم پانچ برس سے خوشگوار شادی شدہ زندگی گذار رہے تھے یا ان کے درمیان طویل عرصے سے قابل رشک دوستانہ تعلقات موجود تھے اور وہ اکٹھے رہ رہے تھے۔ان جوڑوں میں کبھی طلاق یاکسی بڑے اختلاف کی نوبت نہیں آئی تھی۔ان سب جوڑوں کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ مرد لڑکی سے عمر میں کم ازکم پانچ سال بڑا تھا اور لڑکی کی تعلیمی قابلیت اپنے جیون ساتھی سے زیادہ تھی اور وہ ذہانت کے لحاظ سے کئی معاملات میں اس سے بہتر تھی۔
اس تحقیق کے نتائج یورپین جرنل آف آپریشنل ریسرچ میں شائع ہوئے ہیں۔ نتائج کے مطابق مطالعے میں شامل جوڑوں نے ایک دوسرے کا انتخاب کرتے وقت ، محبت، خوبصورتی، ایک جیسا مزاج، عقائد ، رجحانات اور مشترک اقدار کو یا تو اپنے پیش نظر رکھا تھا یا یہ پہلو غیر شعوری طورپر انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمر، تعلیم اور معاشرتی پس منظر جیسے عوامل جوڑوں کو ایک ساتھ رکھنے اور ان میں علیحدگی کی شرح کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف باتھ کے سائنس دان ڈاکٹر ایمانیوئل فریگنیئر کی نگرانی میں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ایک بار طلاق کے عمل سے گذرنے والے افراد اپنی آئندہ زندگی میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کی دوسری شادی خوشگوار گذرتی ہے۔لیکن اگر میاں بیوی دونوں ہی طلاق یافتہ ہوں تو صورت حال خراب بھی ہوسکتی ہے۔
روزنامہ نئی بات خواتین میگزین نے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین سے پوچھا کہ "شوہر کیسا ہونا چاہیے ؟” تو ان میں سے 20فیصد نے کہا شوہر کو امیر و کبیر ہونا چاہیے ۔30 فیصد نے کہا کہ شوہر کو ایک وجہیہ مرد ہونا چاہیے اور برسر روزگار ہونا چاہیے ۔ 15فیصد نے کہا کہ شوہر کیسا ہی کیوں نہ ہو بس اسے برسرروزگار ہونا چاہیے۔35 فیصد نے کہا کہ شوہر باوفا اور پیار کرنے والا ہونا چاہیے۔
مقدس ناز جو ایک ملٹی نیشنل ادارے میں ایگزیکٹو کی پوسٹ پر کام کرتی ہیں اور انھوں نے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ان کی شادی کو 10برس ہونے کو ہیں اور تین بچے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ میری شادی میرے والدین نے طے کی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں جیسا خاوند چاہتی تھی ویسا ہی مجھے ملا۔انھوں نے کہا زندگی کی خو شحا لی اور شیر ینی، میا ں بیو ی کی با ہمی شر اکت و تعا و ن ، عقلمند ی اور ایک دوسر ے کے حقوق با احسن ادا کر نے کی مرہونِ منت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشتر ک از دواجی زند گی جو ایک مقد س عہد و پیما ن سے شر و ع ہو تی ہے ہم انسانوں کے لیے خد ا و ند عا لم کی عظیم الشان نعمتو ں میں سے ایک نعمت ہے لیکن سا تھ ہی یہ بہت سی آفتوں میں بھی گھری ہوئی ہے۔انھوں نے کہا میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ دونوں ایک دو سر ے کے حسد او ر ناموس کے جذبے کو نہ جگا ئیں۔ شوہروں کو چاہیے کہ وہ نامحرم خو اتین کے ساتھ معاشرت اور نشت و برخاست یا ایسا کوئی کام اور بات نہ کریں کہ جس کی وجہ سے آپ کی بیویاں حسد کر نے لگیں۔ اس طر ح بیویوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے ان کے شوہر کے دل میں حسد یا غیرت کا جذبہ پیدا ہو۔ کیونکہ یہ حسد انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور محبت کی بنیادو ں کو کمزور کرکے اسے جڑ سے ختم کردیتا ہے۔
روشن جہاں ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ شوہر ایسا ہونا چاہیے جو اپنی بیوی کے ساتھ زیادتی نہ کرتا ہوں، بیوی کو حقارت و اہانت سے نہ دیکھتا ہو۔ روشن جہاں کا کہنا ہے کہ ظلم، اہانت اور بغیر کسی وجہ کے ترجیحی رویہ اختیار کرنا ہر حال میں غلط و ناپسندیدہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے سب سے بہترین مرد ہوں اور آپ اپنی تعلیم، معلومات اور دیگر خصوصیات سے مکمل انسان ہوں تو آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ایک نچلے طبقے کی کم پڑھی لکھی خاتون کے ساتھ چھوٹا سا بھی ظلم کریں اور اس کی اہانت کریں۔ عورت، عورت ہی ہے تا قیامت۔ آپ کو اس کی چھوٹی سے چھوٹی اہانت کا بھی ہر گز حق حاصل نہیں ہے۔ مرد، عورت سے کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو، اسے یہ حق نہیں کہ اپنی بیو ی پر ظلم و جفا کرے۔
شمسہ خانم ایڈووکیٹ نے روشن جہاں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح بیوی کیلئے بھی یہی ہے۔اگر ایک پڑھی لکھی خاتون ایک عام سے نوکری والے یا مزدور سے شادی کرتی ہے چنانچہ اسے بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی تحقیر کرے۔ اس کا شوہر کیسا بھی ہو بہرحال اپنی بیوی کی تکیہ گاہ ہے اور بیوی کو اسی پر تکیہ اور بھروسہ کرنا چاہیے۔یہ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ایسی حفاظت کرے کہ اس پر تکیہ کرسکے۔ اگر آپ نے اس طرح اپنے گھر کو بسایا تو جان لیے کہ آپ نے اپنی خوش بختی کے ایک بنیادی رکن کی حفاظت کرلی ہے۔
رابیعہ شکیل جو نفسیات میں ماسٹر کر رہی ہیں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو چا ہیے کہ وہ زندگی کے آئیڈیل کے پیچھے نہ بھاگیں۔ شا دی میں کوئی بھی آئیڈیل نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی انسا ن اپنے آئیڈیل کو ڈھونڈسکتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ مل جل کر زندگی کی تعمیر کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کے ابتد امیں جب میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو انہیں سامنے سب کچھ اچھا اور خوبصورت ہی نظر آتا ہے،کچھ مدت بعد وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے،مناسب ہے،اس کے بعد نقائص،کمی و کوتاہی اور کمزوریاں آہستہ آہستہ دونوں میں نظر آنے لگتی ہیں۔لیکن ان تمام باتوں کو میاں بیوی کے لیے سرد مہری اور دل کی تنگی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ بلکہ انہی کوتاہیوں اور کمزور یوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی چاہیے کیونکہ آئیڈیل اور بے عیب مرد اور عورت اس عالم ہستی میں کہیں بھی نہیں مل سکتے۔
بشریٰ مجید کا کہنا ہے کہ شوہر کو ایک وجہیہ اور خوبصورت مرد ہونا چاہیے۔ تاکہ ساتھ چلتا ہوا اچھا لگے یہ نہ ہو خاوند کوئی ایسا مرد ہو کہ جس کے ساتھ چلتے ہوئے لوگ باتیں بنائیں۔ ویسے بھی خوبصورتی ہی تعریف سمجھی جاتی ہے اور خوبصورت سے محبت بھی کی جا تی ہے۔ لیکن بشریٰ مجید کی بہن آسیہ کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے رشتے کی مضبوطی کے لیے ظاہری خوبصورتی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ظاہری خوبصورتی کچھ حد تک محبت میں اضافے کا باعث تو ہوتی ہے تاہم اس کا رشتے کو پائیدار اور دیرپا بنانے میں کوئی زیادہ کردار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک انسان کا خوبصورت ترین جیون ساتھی اگر اس کا کہا نہیں مانتا، اس کی بات کو اہمیت نہیں دیتا، یا بار بار تاکید کرنے پر بھی کوئی اہم بات بھول جاتا ہے تو جلد ہی ایسے جیون ساتھی سے محبت ختم ہو جائے گی۔لیکن اس کے برعکس اگر آپکا جیون ساتھی خوبصورت نہیں ہے اور اس وجہ سے آپکواس سے محبت نہیں ہے۔ لیکن وہ آپ کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو اہمیت دیتا ہے، آپ کا کہا مانتا ہے اور اچھے انداز سے بات کرتا ہے تو ان عادتوں کی وجہ سے جلد ہی اس سے محبت ہو جائے گی۔لیکن بشریٰ اس بات پر مضر ہے کہ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ سب کچھ خوبصورتی نہیں لیکن خوبصورتی کا کچھ نہ کچھ عمل دخل بہر حال ہوتا ہے۔
شاہدہ حمید جو ایک بنک میں ملازمت کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ شادی کے لیئے میری نظر میں سب سے پہلے لڑکے اور ان کے خاندان کا اخلاق دیکھنا چاہیئے۔ کیونکہ خوبصورتی تو وقت کے ساتھ ساتھ ڈھل جاتی ہے مگر اخلاق قائم رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان دوستی، اعتماد، مساوات، محبت اور صبر وہ خصوصیات ہیں جن سے تعلق مضبوط ہوتے ہیں – انھوں نے آئیڈیل شوہر کے حوالے سے کہا کہ میرے خیال میںمحبوب اور شوہر میںبہت فرق ہوتا ہے۔ جب کوئی مرد آپ کا محبوب ہوتا ہے تو آپ کو اس کا انداز، اس کا لباس، اس کی باتیں ، اسے دیکھنا، اس کا دیکھنا ، سب اچھا لگتا ہے لیکن جب آپ کی شادی ہوجاتی ہے تو آپ کی ترجیحات تبدیل ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اب آپ کو ایک محبوب نہیں بلکہ ضروریات زندگی کے لیئے ایک اچھے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو ناصرف آپ کا بلکہ گھر کے دیگر گھر والوں کا بھی اچھی طرح خیال رکھے۔
شمیم اختر کا بھی یہی کہنا ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہے وہ اگر میاں بیوی میں ہوگی توانسان کو سب چیزیں مل جاتیں ہیں۔شریک حیات کا مزاج کیسا بھی ہو وہ محبت کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسرے کی پسند کے مطابق بخوشی ڈھال لیتے ہیں۔محبت انسان کو خوبصورت بنادیتی ہے۔غرض میاں بیوی میں محبت کا ہونا سب سے اہم ہے۔
عائشہ جمیل کا کہنا ہے کہ لڑکا ہمیشہ امیر اور اچھے روزگار رکھنے والا ہونا چاہیے کیونکہ جیسے حالات جا رہے ہیں وہاں زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لڑکا اگر امیر خاندان کا ہوگا تو موجودہ حالات سے ااسانی سے نمتا جا سکے گا اور اگر لڑکا کی آمدن کم ہے ، گھر کرایے کا ہے تو ایسے میں اس کے اچھے اخلاق یا اچھی صورت یا لمبے قد سے کرایہ کا گھر اپنا تو نہیں ہو جائے گا اور نہ اس کی اچھی صورت سے بجلی کا بل ادا ہو سکے گا۔ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری نہیں کر سکتا تو اس شوہر کی خوبصورتی کا کیا فائدہ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ موجودہ دور کی حقیقتیں ہیں جنہیں ہمیں ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔
ساجدہ سلیم کا کہنا ہے کہ شریک حیات تو قسمت میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے شادی سے پہلے بس اللہ سے ہی دعا کرتی تھی کہ میری شادی جس سے ہونے جارہی ہے وہ مجھ سے محبت کرے۔کیونکہ میرے خیال میں کوئی عورت اپنے مرد سے کچھ اور نہین چاہتی ماسوائے اس کے کہ اس کا شوہر صرف اس کا ہو اور اس سے محبت کرتا ہو۔ باقی رہا دیگر ضروریات زندگی تو ہمارا اس پر ایمان ہے کہ جب اللہ نے کسی کو پیدا کیا تو وہ اس کا رزق بھی خود ہی دیتا ہے۔
قارئین آپ نے دیکھا کہ خواتین کی اکثریت نے شوہر کی امارت کو ترجیح نہیں دی بلکہ اس کے اخلاق اور اس کی محبت کو پسند کیا ہے۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ اخلاق اور محبت ہی وہ چیز ہے جو دنیا کی تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کر سکتی ہے۔

 

تبصرہ کریں