مضامین

انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم


قانون شہادت میں ترمیم کیے بغیر یہ قانون نا قابل عمل ہے

Police escort hooded and detained men to a prison in Bahawalpurمنصور مہدی

پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کی غرض سے ابھی حال ہی میں سینیٹ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کا ترمیمی بل منظور کیا ہے ۔ جس کے مطابق وفاقی حکومت کسی بھی مشتبہ شخص یا افراد کی ٹیلی فون کالز یا پیغامات کی ٹریسنگ اور ٹیپنگ کرسکے گی ۔کسی بھی شخص کو پولیس تفتیش کے دوران معلومات کیلئے طلب کرسکے گی ۔کوئی بھی ٹیلی فون کمپنی مشتبہ شخص یا کسی بھی فرد کا موبائل فون ڈیٹا ، ای میل ، ایم ایم ایس اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ یا ایسی دوسری اطلاع حاصل کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔کسی بھی دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث یا کسی بھی قسم کی معاونت فراہم کرنے والے کوکم از کم سزا 10 سال ہو گی۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار شخص کو 90 روز تک حراست میں رکھا جا سکے گا جسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا سکے گا اور ملزم کا ٹرائل بند کمرے میں ہو گا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کیخلاف مزاحمت،اسلحہ کے زور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا اور غیرقانونی ایف ایم ریڈیو چلانا بھی دہشت گردی میں شمار ہو گا۔
پاکستان میںاس وقت 1997ءکا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ رائج ہے۔ اس قانون کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں بہت سے ایسی خامیاں ہیں کہ جن کی موجودگی میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو سزائیں نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک لاتعداد ملزم بری ہو چکے ہیں۔ لیکن جب میرٹ ہوٹل، ڈنمارک ایمبیسی ، آر اے بازار راولپنڈی ، آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں پر اور سرجن جنرل لیفٹینینٹ جنرل مشتاق بیگ پر ہونے والے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کہ جن میں 50سے زائد افراد ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہو گئے تھے، کے مقدمات میں ملوث ملزموں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رہا کر دیا اور بعد ازاں انہی ملزمان کو وزارت داخلہ کے احکامات کے تحت حراست میں لیے جانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انھیں رہا کر دیا تو حکومت کو اس ایکٹ میں خامیاں نظر آئیں ۔ چنانچہ حکومت نے اس ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا۔
کیونکہ یہ قانون دہشت گردی کی روک تھام کے لیے عملاً غیر موثر ثابت ہو چکا ہے۔ جس میں نہ تو تفتیش کرنے کا طریقہ کار ہی درست تھا اور نہ اس حوالے قانون نافذ کرنے والے اداروں ، پولیس اور تفتیشی اداروں کو ایسے اختیارات حاصل تھے کہ جس کے تحت وہ مشتبہ ملزمان کو زیادہ دیر کے لیے حراست میں رکھ سکے۔اگرچہ اب موجودہ ترمیم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں ، پولیس اور تفتیشی اداروں کو وسیع اختیارات دے دیے ہیں۔ جبکہ کالعدم تنظیموں کیخلاف بھی قانون سخت کردیا گیا ہے۔ جس کے تحت وہ نہ تو پاسپورٹ حاصل کرسکیں گے اور نہ ہی بیرونی ملک سفر کی انہیں اجازت ہوگی۔ انہیں کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ مالی مدد ، قرضہ یا کریڈٹ کارڈ جاری نہیں کریگا۔ ان کے اسلحہ لائسنس منسوخ تصور ہونگے جبکہ مجرم کی جائیداد ضبط بھی کی جاسکے گی۔
اس ترمیم کے تحت انسداد دہشت گردی ایکٹ کے 25دفعات میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نئے ترمیمی ایکٹ 2012ءکے تحت اب عوامی اور معاشرتی شعبوں اور کاروباری حلقوں کو خوفزدہ کرنے والے بھی اس قانون کے تحت قزبل تعزیر قرار پائیں گے۔جبکہ کسی قانونی جواز کے بغیر کسی بھی قسم کا دھماکا خیز مواد یا آتش گیر مواد رکھنے والے بھی اس قانون کی زد میں آئیں گے۔ مزید یہ کہ حکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی بھی میڈیا کے ذریعے اپنے اعتقادات ، ارشادات اور عقیدے پھیلانے یا تبلیغ کرنے والے پر بھی اس قانون کا اطلاق ہو گا۔ اب اغواء برائے تاوان اور ہائی جیکنگ میں ملوث افراد پر بھی اس قانون کے تحت مقدمات چلائیں جائےں گے۔
اس ترمیم کے بعد ایسے مقدمات جو اس قانون کے تحت قائم ہو نگے ان کی تفتیش کم از کم سب انسپکٹر کے عہدے سے کم کا کوئی افسر نہیں کر سکے گا ۔ جبکہ ملوث افراد کے بنک اکاﺅنٹ منجمد کر دیے جائے گے اور ان کی جائیدادیں عدالتی حکم کے بغیر فروخت نہیں ہو سکے گی جبکہ جرم ثابت ہونے کے بعد حکومت نہ صرف بنک اکاﺅنٹ ضبط کر سکے گی بلکہ جائیدادوں کو قرق کر سکے گی۔
فوجداری قانون کے ماہر اور لاہور ہائی کورٹ کے سنیئر وکیل ثقلین جعفری کا انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت رائج کوئی بھی قانون اپنے اپنے مقاصد کے حوالے سے کافی ہیں۔ان تمام تر قوانین میں ہر طرح کے ملزموں کے خلاف کاروائی کرنے اور مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تمام شقیں موجود ہیں۔ تاہم کسی بھی مقدمے میں تفتیش انتہائی ایماندار ، ہوشیاری اور جرآت سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب تنائج درست آتے ہیں مگر جہاں پر تفتیش میں ہی غیر جانبداری برتی جائے تو عداتیں کیسے ملزموں کو مجرم بنا سکتی ہیں۔ناقص اورطریقہ کار سے ہٹ کر کی گئی تفتیش کے نتیجے میں ہمیشہ عدالتیں ملزموں کو فائدہ دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹیلی فون کمپنی مشتبہ شخص یا کسی بھی فرد کا موبائل فون ڈیٹا ، ای میل ، ایم ایم ایس اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ یا ایسی دوسری اطلاعات حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اب تک بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ اطلاعات حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر عدالتی طریقہ کار میں ان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان کے قانون شہادت میں ای میل، ایس ایم ایس اور اس طرح کے دیگر الیکٹرونک پیغامات کو شہادت کا درجہ دیا جائے گا تب تک اس ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔انھوں نے بتایا کہ قانون شہادت میں پہلے سے ہی ماڈرن ڈیوائسس کا ذکر ہے مگر جس دور میں یہ قانون بنا تھا اس وقت ماسوائے ٹیپ ریکارڈر کے کوئی دیگر ڈیوائسس موجود نہیں تھی۔ مگر اس وقت کی ڈیوائس کو عدالت میں بطور شہادت پیش کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔ مزید یہ کہ کوئی ایسا اداراہ موجود نہیں تھا کہ جو اس بات کی تصدیق کرتا کہ مذکورہ ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کی ہوئی آواز کس کی ہے۔ آیا اصل ملزم ہی کی ہے یا کسی نے اس کی آواز کی نقل کی ہے۔ انھوں نے کہا اب تو جدید ترین اور کئی اقسام کی ماڈرن ڈیوائسس مارکیٹ میں موجود ہیں مگر ان کی عدالت میں بطور شہادت پیش
کرنے کے لیے تصدیق کون سا ادارہ کرے گا۔ انھوں نے کہا ان ترامیم میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ غلط اور جانبدار تفتیش کی صورت میں کیا کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ جرم قانون سے نہیں روکے جاتے ان کے خاتمہ کے لیے ایمانداری اور حوصلے کے ساتھ جرم کے اسباب کے خاتمے کی ضرورت ہوتی ہے۔
Army soldiers keep guard outside the compound where U.S. Navy SEAL commandos reportedly killed al Qaeda leader Osama bin Laden in Abbottabad

تبصرہ کریں