خواتین / سچی کہانیاں

کم عمری کی شادیاں


منصور مہدیhenna2
12سالہ سفینہ ایک ہنس مکھ بچی تھی ۔اس کے والدین لاہور کے نواحی علاقے میں رہتے تھے۔ غربت کی وجہ سے وہ سفینہ کو سکول میں داخل نہ کروا سکے۔ وہ ہر وقت گھر میں ہی رہا کرتی ہے۔ اس کا کوئی بھائی تھا اور نہ ہی بہن۔ چنانچہ وہ ہر وقت اپنی گڑیوں کے ساتھ ہی کھیلا کرتی تھی یا پھر گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹا دیتی تھی۔ جب وہ 13برس کی ہوئی تو ایک دن اس کی خالہ آئی ۔سفینہ بہت خوش ہوئی جب خالہ نے بتایا کہ وہ اسے لینے آئی ہے۔ کیونکہ سفینہ اپنی خالہ سے بہت پیار کرتی تھی مگر بچپن کی وجہ سے اسے خالہ کی بات اور ان کے لہجے کی سمجھ نہ آئی۔
رات کو جب سفینہ کا والد اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر گھر آیا تو سفینہ کی خالہ نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ وہ اپنے خالد کے لیے سفینہ کا رشتہ لینے آئی ہے۔ خالد 22سال کانو جوان تھا اور آورہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی لکھائی سے دور تھا۔ مگر اب اس نے ایک ورکشاپ میں کام سیکھنا شروع کیا تھا۔ سفینہ کے والدین انکار نہ کر سکے چنانچہ سفینہ کی خالد سے شادی ہونا قرار پا گئی۔ پہلے تو سفینہ کو سمجھ نہ آئی بلکہ بہت خوش ہوئی کہ خالد کی شادی ہو رہی ہے ۔ اس نے دل ہی دل میں شادی میں شرکت پر نت نئے کپڑوں وغیرہ کا پروگرام بنا لیا مگر جب اس کی والدہ سے اسے سمجھایا تو وہ اداس ہو گئی۔ اگرچہ وہ ابھی شادی کے نشیب و فراز سے تو واقف نہیں تھی ہاں اپنے گڈے اور گڑیا کی شادی کی وجہ سے اسے اس بات کی سمجھ تھی کہ گڑیا پھر اپنا گھر چھوڑ کر گڈے کے گھر چلی جاتی ہے۔
آخر چند ہی ہفتوں بعد وہ دن آگیا جب سفینہ گڑیا کے روپ میں گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ شادی کو ایک سال گزر گیا تو پتہ چلا کہ سفینہ امید سے ہے مگر کم عمر ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے بتایا کہ نارمل ڈلیوری ممکن نہیں لہذا بڑا آپریشن کرنا پڑے گا۔ سفینہ کی پیدائش کے وقت اگرچہ سفینہ کی والدہ کی عمر 18سال تھی مگر وہ چونکہ اس اذیت سے گزر چکی تھی لہذا وہ فکر مند ہو گئی۔ شہر جا کر بڑے ہسپتال میں آپریشن کروانے کے پیسے نہیں تھے ۔ جبکہ سرکاری ہسپتال کی ڈاکٹر کے بارے میں اس نے اس کی لاپروائی کے بہت سے واقعات سنے ہوئے تھے۔ لیکن کیا کر سکتی تھی بس صبر شکر کر کے بیٹھ گئی۔
ابھی سردیوں کی پہلی بارش ہی ہوئی تھی اور سرشام ہی سردی بڑھ گئی تھی کہ سفینہ کے گھر سے پیغام آیا کہ اس کی حالت خراب تھی چنانچہ وہ اسے سرکاری ہسپتال لے گئے ہیں۔ یہ سن کر اس کی والدہ اور والد بھی بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچ گئے۔ سامنے ہی سفینہ کا شوہر اور اس کی خالہ نظر آگئی۔ جنہوں نے بتایا کہ سفینہ آپریشن تھیٹر میں ہے۔
تھوڑی دیر بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر تیز تیز چلتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ سفینہ کی والدہ اور خالہ دوڑ کر آپریشن تھیٹر کے دروازے پر پہنچ گئیں تو سامنے ہی نرس نظر آئی۔ انھوں نے نرس سے پوچھا تو وہ کوئی مناسب جواب نہ سکی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سچ بتلانے سے کترا رہی ہے۔ بہرحال تھوڑی ہی دیر میں پتا چل گیا کہ سفینہ اب اس دنیا میں نہیں ہے اور اس کے پیدا ہونے والا بچہ بھی جانبر نہ ہو سکا۔
پاکستان میں صرف سفینہ ہی وہ بچی نہیں تھی کہ جس کے والدین نے اپنی دیہی روایات کے مد نظر بچپن میں ہی بیاہ دیا اور وہ شادی کے ایک سال بعد ہی پہلے بچے کی پیدائش پر انتقال کر گئی بلکہ پاکستان میں ہر 20 منٹ بعد زچگی کے دوران ایک حاملہ خاتون موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ۔ جس کی ایک بڑی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر ہی میں کر دی جاتی ہیں۔ جب کہ 14 سے 19 سال کی عمر میں لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں یا پھر وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کی شادی کے باعث لڑکیاں ناصرف اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتیں بلکہ ان کے ہاں کم وزن کے بچے جنم لیتے ہیں جو ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کی شادیوں کے حوالے سے صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے۔رپورٹ کے مطابق، اگر یہ رجحان برقرار رہا تو اگلی دہائی کے دوران142 ملین لڑکیاں اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بیاہ دی جائیں گی۔142ملین کا ایک دہائی کے سالوں پر اوسط نکالیں تو یہ ہر سال14.2 ملین اور ہر روز37000 کم عمر بچیوں کی شادی ہوتی ہے ۔بچیوں کی کم عمری میں شادیوں کا سب سے بڑا حصہ یعنی 46 فیصد صرف جنوبی ایشیا میں ہے۔ جس میں کے پاکستان بھی آتا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی شادیوں کا کم سے کم تیس فیصد ایسا ہے جو اٹھارہ سال سے بھی کم عمر کی دلہنوں پر مشتمل ہے۔کم عمری شادیوں کی حوالے سے سب سے زیادہ سنگین مسئلہ افغانستان میں ہے کہ جہاں 46 فی صد خواتین کی شادی 18 سال سے کم عمر جب کہ 15 فی صد سے زائد کی 15 سال سے بھی کم عمری میں کردی جاتی ہےں۔
پاکستان میں عام طور پر پیدا ہونے والی بچیوں کو اکثر اوقات میراث میں تعلیم، صحت اور قانونی حقوق کی عدم فراہمی وغیرہ جیسا ورثہ ملتا ہے۔ مزیدِ برآں، کم عمری کی شادیوں کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں۔ بچپن میں شادی کے بعد، بنا کسی تربیت یا تیاری کے، اچانک بالغ فرد کی حیثیت سے ذمہ داری عائد ہونے اور انہیں نبھانے کے دوران بچی کو جو ذہنی صدمہ اٹھانا پڑتا ہے وہ تو ہے ہی مگر اس کے علاوہ بھی وہ طویل المدت جسمانی بیماریاں اور دماغی صحت کے معاملات کا شکار بن جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان مین ہر سال تقریباً5 ہزار شادی شدہ عورتیں "آبسٹریکٹ فسٹولا” میں مبتلا ہوجاتی ہے، کم عمری میں شادی کردی جانے والی بچیوں میں اس بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے۔
یہ دیگر میں سے ایک خطرہ ہے جو قبل از وقت بچے کی پیدائش اور پھر مختلف مہلک امراض کا سبب بنتا ہے۔اگرچہ اس طرح کے امراض کو تھراپی اور سرجری کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان جہاں ایک طرف صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے، دوسرا یہ کہ پوشیدہ امراض کے باعث عورتیں اس کا زکر کرتے ہوئے شرماتی ہیں۔ یوں مسئلہ سنگین ہوجاتا ہے۔ اور وہ خاموشی سے تکلیف برداشت کرتے ہوئے زندگی بسر کرتی رہتی ہیں تاوقتیکہ ان کے شوہروں کے علم میں یہ بات آئے اور وہ اس کا علاج کرادیں۔
اگرچہ اکثر ممالک میں شادی کے لیے قانونی طور پر عمر کی حد اٹھارہ سال ہے مگر پاکستان میں یہ حد سولہ سال ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غربت اور پسماندگی کے باعث قانونی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔پاکستان میں مسلم فیملی لاءآرڈیننس کے تحت شادی کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر سولہ سال ، جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر کی گئی تھی ، اور لڑکے اور لڑکی کی رضامندی حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے اقوام متحدہ کے کنونشن پر 1990ء میں دستخط کئے تھے ۔ جس کے تحت بچپن کی شادی پر پابندی ہے۔لیکن پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں اب بھی کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج موجود ہے اور ایسا صرف ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ہو رہا۔ حال ہی میں ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں اسی موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔
جس میں دنیا کے مختلف معاشروں سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین شریک ہوئیں کہ جن کی کم عمری میں شادیاں ہوئی تھیں۔ اس کانفرنس میں انھوں نے اپنے اپنے تجربات بیان کیے۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ دنیا کے کئی خطوں میں رہنے والی لڑکیوں میں ایک ساہی ہوتا ہے۔ جن کی مرضی معلوم کئے بغیر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے شادی کر دیجاتی ہے۔خاندانی ، علاقائی یا قومیت کی بنیاد پر رسم ورواج کی وجہ سے بیشتر بچیوں کو پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک سکول سے نکال کر ایسے اجنبیوں سے بیاہ دیا جاتا ہے کہ جنہیں انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔
پاکستان میں خاندانی اور علاقائی روایات کے تحت کم عمری کی شادیاں تو ہوتی ہی ہیں مگر ایسے سنگین روسم و رواج بھی ہیں کہ جس کا کوئی مہذب معاشرے سوچ بھی نہیں سکتا کہ نو عمر بچیوں کے ساتھ ایسا سلوک بھی ہوتا ہے۔ ان رسم و رواج میں ”سووَرہ“ یعنی شادی کے لئے لڑکی دے کر کسی جھگڑے کو نمٹانا ، ”وٹا سٹا“ یعنی ادلے بدلے کی شادی اور ”ولوار“ یعنی پیسوں کے بدلے دلہن خریدنے کی رسوم بھی شامل ہیں۔
کم عمری کی شادیاں جہاں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے وہیں یہ مختلف طویل اور قلیل مدتی مسائل کو بھی جنم دیتی ہیں۔ کیونکہ یہ عمر ایسی ہے کہ لڑکی ازخود کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتی۔کم عمری کی شادیوں کے رسم ورواج کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمارے کچھ علاقوں میں یہ رسم و رواج صرف اور صرف مردوں کی جنسی تسکین کے پیداوار ہیں اور ان کا علاقائی رسم و رواج یا مذہب سے کوئی تعلق ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری میں بچیاں کلی طور پر والدین یا اپنے سرپرستوں پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ اور صرف والدین یا سرپرست ہی انھیں بچا سکتے ہیں۔

کم عمری کی شادیاں” پر ایک خیال

تبصرہ کریں